کسی وبا یا بیماری میں مبتلا شخص کے ساتھ کھانا پینا اور زندگی گزارنا
سوال
ایك شخص کو عارضہ جذام کی ابتداء ہے۔ اس کے بھائی بند (رشتہ دار) اور اولاد نے اس کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ تجھ سےتیری زوجہ بھی بلاطلاق علا حدہ ہوسکتی ہے۔ ایسی حالت میں جو حکم شرع مطہرہ میں ایسےمریض کے واسطے ہو بیان فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب
فی الواقع ضعیف الاعتقاد لوگ جنھیں خدا ے تعالیٰ پر سچا توکل نہ ہو اور وہمی خیالات رکھتے ہوں، انھیں جذامی کےساتھ کھانے پینے سے بچنا چاہیے، نہ اس خیال سے کہ اس کے ساتھ کھانے کی تاثیر سےدوسرا شخص بیمار ہوجاتاہے، یہ خیال محض غلط ہے۔ تقدیر الٰہی میں جو کچھ لکھا ہے ضرورہوگا اور جو نہیں لکھا ہے ہرگزنہ ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو ارشاد فرماتاہے کہ یوں کہیں:
﴿قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ہُوَ مَوْلٰىنَا وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوۡنَ﴾ (القرآن الکریم، سورۃ التوبۃ:9، ص:51)
ترجمہ: ہمیں ہر گز نہ پہنچے گی مگر وہ بات جو اللہ تعالٰی نے ہمارے لیے لکھ دی،وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اﷲ ہی پر بھروسہ چاہیے۔
خود نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایك جذامی کو اپنے ساتھ کھلایا بلکہ یہ لحاظ کرے کہ اس کے ساتھ کھایا پیا اور معاذاﷲ شاید حسب تقدیر الٰہی کچھ واقع ہوا،توشیطان دل میں ڈالے گا کہ اس فعل نے ایسا کیا ورنہ نہ ہوتا،اس شیطانی خیال سے بچنے کے لیے اس سے احتراز کرے اس لیے حدیث میں حکم ہے کہ:”جذامی سے بچو جیسا کہ شیر سے بچتے ہیں اگر وہ ایك نالے میں اترے تم دوسرے نالے میں اترو۔
اور ایك حدیث میں ہے کہ: جذامی سے نیزہ دو نیزہ کے فاصلہ سے بات کرو۔
والعیاذ باﷲ رب العالمین، یہ اسی کے لیے ہے جسے واقعی جذام ہو ، نہ یہ کہ خون میں صرف قدرے جوش کی کچھ علامت سی پاکر اسے دور دور کرنے لگیں کہ یہ تو ناحق مسلمان کا دل دکھانا ہے۔خصوصاً بھائی بند اولاد کا ایسا کرنا کس قدر خدا ترسی وانسانیت سے بعید ہے۔اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگیں، کیا وہ ان کو مبتلا نہیں کرسکتا۔ والعیاذ باﷲ رب العلمین۔ اس طرح کے جوش کی علامت معاذاﷲ بعض اوقات بے مرض ِجذام بھی خون کی حدت وغیرہ سے پیدا ہوجاتی ہے اور باذن الٰہی مصفیات وغیرہا کے استعمال سے جاتی رہتی ہے،اﷲ تعالیٰ اپنی بلاؤں سے پناہ عطا فرمائے آمین۔اور لوگوں کا یہ کہنا کہ تیری زوجہ بلاطلاق علاحدہ ہوسکتی ہے اگر اس سے یہ مقصود کہ بے طلاق اس کے نکاح سے نکل سکتی ہے تومحض خطا ہے،ہمارے مذہب میں جب تك یہ طلاق نہ دے گا وہ ہر گز اس کے نکاح سے باہر نہ ہوگی۔
درمختارمیں ہے:
لا يتخيرأحد الزوجین بعیب الاٰخر ولو فاحشا کجنون وجذام وبرص ورتق وقرن الخ
( الدر المختار المطبوع مع رد المحتار، ج: ۵، ص:۱۷۵، کتاب الطلاق/باب العنين وغيرہ، دار عالم الکتب، بیروت) واﷲ تعالیٰ أعلم۔
( فتاوی رضویہ ج: ، ۲۱،ص: ۱۱۱-۱۱۲، ط: برکات رضا، پوربندر، گجرات)