غیر مسلم قرض خواہ مر جائے تو قرض کا حکم
سوال
غیرمسلم سے کسی اہل اسلام نے قرض لیا تھا،اور قضاء عنداﷲ وہ قرض خواہ واصل جہنم ہوا اور اس کا کوئی ورثہ باقی نہیں تو اس کے قرضہ کے اداکی کیاصورت ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب
جوشخص مرجائے اورکوئی وارث نہ چھوڑے نہ کسی کے نام وصیت کی ہوتو اس کے مال کامستحق بیت المال ہے اوربیت المال کے ایسے مال کے مستحق مذہب جمہورپر فقراء مساکین عاجزین ہیں کہ ان کے کھانے پینے،دوادارُو،کفن دفن میں صرف کیاجائے۔
در مختار میں ہے: ورابعھا الضوائع مثلا ما لا یکون لہ أناس وارثون۔
( الدر المختار المطبوع مع رد المحتار/کتاب الزکاۃ /باب العشر /ج:3، ص:283، دار عالم الکتب، بیروت)
الضوائع اللقطات و قولہ مثل ما لا أي مثل ترکۃ لاوارث لھا أصلا، أولھا وارث لایرد علیہ، فمصرفہ المشھور ہو اللقیط الفقیر والفقراء الذین لا أولیاء لھم فیعطی منہ نفقتھم وأدویتھم وکفنھم وعقل جنایتھم کما فی الزیلعی وغیرہ وحاصلہ أن مصرفہ العاجزون الفقراء اھ ملتقطا۔
(رد المحتار المطبوع مع الدر المختار/کتاب الزکوۃ /باب العشر /ج: 3، ص:283، دار عالم الکتب، بیروت)
اوریہ حکم جیسامالِ مسلم کے لیے ہے یوں ہی مال کافر کے لیے بھی۔
عالمگیری میں ہے:من مات من أھل الذمۃ ولاوارث لہ فما لہ لبیت المال کذا في الاختیار شرح المختار.
(الفتاوي الهندية، كتاب الفرائض/الباب الخامس، ج:4، ص:454، دار الفکر، بیروت)
پس ایسی صورت میں وہ مال فقراء کو دے دے نہ اس نیت سے کہ اس صدقہ کاثواب اس کافرکوپہنچے کہ کافراصلًا اہل ثواب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ خبیث مرگیا اورموت مزیلِ ملك ہے تو اب وہ اس کامالك نہ رہا بلکہ حق بیت المال ہوا توفقراء کو بذریعہ استحقاقِ مذکوردیاجاتاہے۔واﷲ سبحانہ وتعالیٰ أعلم۔
(فتاویٰ رضویہ، ج:٢٥، ص : ٥٣-٥٤ ، ط:برکات رضا ، پوربندر، گجرات)